28 November 2012

پھول

بچپن کی جو باتیں مجھے یاد ہیں، ان میں نمایاں پھول ہیں۔ پھول بے جان نہیں ہوتے۔ یہ ہماری طرح سانس لیتے ہیں، ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں اور بعض اوقات غمگین بھی ہو جاتے ہیں۔
سب سے شریر "گلاب" کے پھول ہیں جن کا کام ہر وقت مسرور رہنا ہے۔ یہ دوسروں پر ہنستے رہتے ہیں۔ کسی کو اداس دیکھا اور لگے قہقہے لگانے۔
"گل اشرفی" وہاں ہوتا ہے جہاں زمین میں سونا ہی سونا ہوتا ہے ۔
"رات کی رانی" کے پھولوں کی کبھی سورج سے لڑائی ہو گئی تھی چنانچہ اس ضد میں وہ کبھی دن میں نہیں کھلتا، ہمیشہ رات کو کھلتا ہے۔
"سورج مکھی" کا پھول سورج پر عاشق ہے لیکن سنا ہے کہ سورج اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ سورج پھولوں کو اچھا نہیں سمجھتا۔ ویسے وہ کسی نہ کسی پر عاشق ضرور ہے جبھی تو ہر وقت جلتا رہتا ہے لیکن سورج مکھی کو خواہ مخواہ کی غلط فہمی ہے۔
"چنبیلی" کے پھول سدا غمگین رہتے ہیں لیکن ان کی اداسی کی وجہ کسی کو معلوم نہیں۔ جب ہوا کے جھونکے چلتے ہیں تو یہ دبی دبی آئیں بھرتے ہیں۔
"نرگس" کے پھول ہمیشہ کسی کے منتظر رہتے ہیں، کوئی ان سے ملنے کا وعدہ کرکے چلا گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ وہ دن رات منتظر رہتے ہیں۔
جہاں "شبو" کی کلیاں ہوں، وہاں رات کو پریاں اترتی ہیں اور رات بھر کھیلتی رہتی ہیں۔ کلیوں کو گدگداتی ہیں۔ اگر اتفاق سے کوئی کلی ہنس دے تو کھل کر پھول بن جاتی ہے۔ آسمان سے پریاں کسی کسی جگہ اترتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شبو کی کلیاں ہر جگہ نہیں کھلتیں اور شبو کے پھول تو قسمت سے ہی نظر آتے ہیں۔
صبح کے وقت جو ہوا چلتی ہے، وہ "موتیوں" کی کلیوں کا منہ چومتی ہے اور کلیاں چٹک چٹک کر ڈال بن جاتی ہیں۔ جو نکھار صبح کے وقت موتیے کے پھولوں پر ہوتا ہے، چمن کے کسی پھول پر نہیں ہوتا۔
"چھوئی موئی" کے پھول بے حد شرمیلی ہوتی ہیں۔ ہر وقت محجوب رہتی ہیں اور کوئی انہیں دیکھے نہ دیکھے، چھیڑے یا نہ چھیڑے، یہ بغیر کسی وجہ کے شرماتی رہتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

تبصرہ کیجئے۔